ایف بی آر کا اختیار تھا کہ زرداری کا مکمل آڈٹ بھی کر سکتا ہے,اسلام آباد ہائی کورٹ


 اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی 8 ارب کی مشکوک ٹرانزیکشن ریفرنس میں بریت کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب سے جواب طلب کر لیا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے نیب سے 18 جنوری تک جواب طلب کر لیا کہ بتائیں کہ متعلقہ معاملہ نکال کر ریفرنس بنتا ہے یا نہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو ریفرنس بنانے سے پہلے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنا چاہیے تھا، ایف بی آر کا اختیار تھا کہ زرداری کا مکمل آڈٹ بھی کر سکتا ہے، قانون کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے نیب کے سارے کیس خراب ہو جاتے ہیں۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ جعلی اکاونٹس کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر ریفرنس دائر کیا گیا، ایف بی آر اور اِنکم ٹیکس کا معاملہ نکال کر بھی ریفرنس بن سکتا ہے۔

آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ نیب آرڈیننس کی کسی شق کے تحت کیس بنتا ہی نہیں۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریفرنس نیب آرڈیننس کے سیکشن2 ، 4اور 12 کے تحت بنایا گیا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نیب کہتا ہے کہ آصف زرداری نے پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے پراپرٹی کیوں خریدی؟ نیب کے مطابق پبلک آفس ہوتے ہوئے کوئی پراپرٹی خرید ہی نہیں سکتا۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جائیداد خریدنے کے لیے جعلی اکاونٹ سے 150 ملین کی ٹرانزیکشن ہوئی، ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں آصف زرداری نے پراپرٹی کی قیمت 53 ملین لکھی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیب انکم ٹیکس ڈیکلیریشن کے معاملے میں کس طرح پڑ سکتا ہے؟جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پراپرٹی کی سرکاری قیمت اور لکھی جاتی ہے، اصل اور ہوتی ہے، ان معاملات پر اگر ریفرنس بنتا ہے تو پورا پاکستان یہی کر رہا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ نیب اپنے اختیار سے تجاوز کس طرح کر سکتا ہے، نیب کے پاس آپشن موجود ہے کہ کیس ایف بی آر کو بھیج دے۔ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کے 53 ملین کا معاملہ نکال کر ریفرنس بنتا ہے تو آئندہ سماعت پر بتائیں۔


Post a Comment

0 Comments